top of page
img-1.jpg

 ان کا نام “ابو علی الحسن بن الہیثم” ہے، ابن الہیثم کے نام سے مشہور ہیں۔انھیں مغرب میں الہیزن یا ہسپانوی زبان میں الہیسن بھی پکارا جاتا ہے۔ ابن الہیشم (پیدائش: 965ء، وفات: 1039ء)

 ابن الہیثم

 أبو علي الحسن بن الحسن بن الهيثم

 عراق کے تاریخی شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ وہ طبعیات، ریاضی،

ہندسیات (انجنئرنگ) ،فلکیات اور علم الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔

ان کی وجہ شہرت آنکھوں اور روشنی کے متعلق تحقیقات ہيں۔

میڈرڈ یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر ریکارڈو مورینو بتاتے ہیں کہ وہ ایک عظیم ریاضی دان تھے۔ ’وہ ان پہلے عربی ریاضی دانوں میں سے تھے جنھوں نے بڑے سوالوں کو حل کرنا سکھایا۔ انھوں نے ہندسوں کی مدد سے ایک تہائی سوالوں کے جواب دیے۔ یہ وہ سوال تھے جو ارشمیدس نے 1200 سے زیادہ سال قبل پوچھے تھے۔‘

الہیثم نے نمبر تھیوری کے شعبے میں کامل عدد جبکہ ہندسوں پر کافی اہم کام کیا۔ اور انھوں نے اقلیدس کے تھیورم کے مخصوص سوالوں پر تحقیق کی۔

ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں غالباً 354 ہجری اور وفات 430 ہجری کو
ہوئی، وہ مصر چلے گئے تھے اور اپنی وفات تک وہیں رہے، بچپن ہی سے وہ
غور و فکر کے عادی تھے۔ پڑھائی لکھائی میں خوب دلچسپی لیتے تھے۔ ریاضی، طبیعیات، طب، اِلٰہیّات، منطق، شاعری، موسیقی اور علم الکلام اُن کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ ابن الہیثم نے ان مضامین میں محنت کر کے مہارت حاصل کی۔ بعد میں اُن کے دماغ میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ اپنی تحقیق و تجربات کو قیدِ تحریر میں لایا جائے تاکہ نہ صرف اپنی کتابیں وہ خود اپنے شاگردوں کو پڑھا سکیں بلکہ آئندہ نسلیں بھی ان سے استفادہ کر سکیں۔

 ابتدائی حالات

c.png

حالات زندگی

ء 996ء میں وہ فاطمی خلافت مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی قفطی کی “اخبار الحکماء” میں ابن الہیثم کی زبانی یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں؛

 

ترجمہ: ‘‘اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور کم ہونے کی تمام ُُصورتوں میں فائدہ ہی ہوتا“ا

ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے سال کے بارہ مہینے دستیاب کر سکتے تھے، ان کا یہ قول مصر کے حاکم الحاکم بامر اللہ الفاطمی کو پہنچا تو انہوں خفیہ طور پر کچھ مال بھیج کر انہیں مصر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کرلی اور مصر کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں الحاکم بامر اللہ نے انہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا، ابن الہیثم نے نیل کے

طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے

جہاں اس وقت “السد العالی” (السد العالی ڈیم) قائم ہے اور اس کا

بھرپور جائزہ لینے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے زمانے کے

امکانات کے حساب سے یہ کام نا ممکن ہے اور انہوں نے

جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کر دیا جسے وہ پورا نہیں کرسکتے

تھے، چنانچہ الحاکم بامر اللہ کے پاس جاکر معذرت کر لی جسے

الحاکم بامر اللہ نے قبول کرکے انہیں کوئی منصب عطا کر دیا،

مگر ابن الہیثم نے الحاکم بامر اللہ کی ان سے رضا مندی کو ایک ظاہری رضا مندی سمجھی اور انہیں یہ ڈر لاحق ہو گیا کہ کہیں یہ الحاکم بامر اللہ کی کوئی چال نہ ہو، چنانچہ انہوں نے پاگل پن کا مظاہرہ شروع کر دیا اور الحاکم بامر اللہ کی موت تک یہ مظاہرہ جاری رکھا اور اس کے بعد اس سے باز آ گئے اور اپنے گھر سے نکل کر جامعہ ازہر کے پاس ایک کمرے میں رہائش اختیار کر لی اور اپنی باقی زندگی کو تحقیق وتصنیف کے لیے وقف کر دیا۔ ناکافی وسائل کی وجہ سے جس منصوبے کو اسے ترک کرنا پڑا۔ اب اسی جگہ مصر کا سب سے بڑا ڈیم یعنی اسوان ڈیم قائم ہے۔

 

کارہائے نمایاں 

ابن ابی اصیبعہ “عیون الانباء في طبقات الاطباء” میں کہتے ہیں : “ابن الہیثم فاضل النفس، عاقِل اور علوم کے فن کار تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنس دان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا، وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے، وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے ”۔

 

نظریات

ابن الہیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ انھوں نے افلاطون اور کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی نکل کر اشیا پر پڑتی ہے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ریاضی کا سہارا لیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔

 

ابن الہیثم نے روشنی، انعکاس اور انعطاف کے عمل اور شعاؤں کے مشاہدے سے کہا کہ زمین کی فضا کی بلندی ایک سو کلومیٹر ہے

 

ان کی کتاب “کتاب المناظر” بصریات کی دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے، کیوں‌کہ ابن الہیثم نے بطلیموس کے نظریات قبول نہیں کیے، بلکہ انھوں نے بطلیموس کے روشنی کے حوالے سے بہت سارے نظریات کی مخالفت کی اور انھیں رد کر دیا، ان کی روشنی کے حوالے سے دریافتیں جدید سائنس کی بنیاد بنیں، مثال کے طور پر بطلیموس کا نظریہ تھا کہ دیکھنا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب شعاع آنکھ سے کسی جسم سے ٹکراتی ہے، بعد کے سائنسدانوں نے اس نظریہ کو من وعن قبول کیا، مگر ابن الہیثم نے کتاب المناظر میں اس نظریہ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ . انھوں نے ثابت کیا کہ مُعاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے اور شعاع آنکھ سے نہیں بلکہ کسی جسم سے دیکھنے والے کی آنکھ سے ٹکراتی ہے۔

 

ابن الہیثم نے روشنی کا انعکاس اور روشنی کا انعطاف یعنی مڑنا دریافت کیا، انھوں نے نظر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عدسوں کا استعمال کیا۔ . ان کی سب سے اہم دریافتوں میں آنکھ کی مکمل تشریح بھی ہے۔ . انھوں نے آنکھ کے ہر حصہ کے کام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں آج کی جدید سائنس بھی رتی برابر تبدیلی نہیں کرسکی۔

 

ابن الہیثم نے آنکھ کا ایک دھوکا یا وہم بھی دریافت کیا جس میں مخصوص حالات میں نزدیک کی چیز دور اور دور کی چیز نزدیک نظر آتی ہے۔

 

روشنی کی بارے میں نظریہ

اس نے نظر کی کرنوں کا قدیم مفروضہ غلط ثابت کر کے ثابت کیا کہ جب روشنی کسی جسم پر پڑتی ہے تو کچھ کرنیں پلٹ کر فضا میں پھیل جاتی ہیں۔ ان میں شے بعض شعاعیں دیکھنے والے کی آنکھ میں داخل ہو جاتی ہیں جس سے وہ شے نظر آتی ہے۔

 

روشنی کے بارے میں ابو علی حسن ابن الہیثم کا کہنا ہے کہ: ’’نور (روشنی ) ہمیشہ خط مستقیم (سیدھا راستہ) میں سفر کرتا ہے، اس کے لیے ذریعے یا واسطے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، بلکہ یہ بغیر سہارے کے سفر کرتا ہے۔ روشنی ہی کے سلسلے میں ابن الہیثم نے ایک اور تجربہ کیا اور اس تجربے کی بنیاد پر دوسرے سائنسدانوں نے آلۂ‌تصویر ایجاد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر کسی تاریک کمرے میں دیوار کے اوپر والے حصے سے ایک باریک سوراخ کے ذریعہ سورج کی روشنی گزاری جائے تو اس کے بالمقابل اگر پردہ لگا دیا جائے تو اس پر جن جن اشیا کا عکس پڑے گا، وہ الٹا ہوگا۔

 

بصریات

بصریات کے میدان میں تو اسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ ابن الہیثم کی بصریات پر معرکہ آرا کتاب آج اپنے لاطینی ترجمے کے ذریعہ زندہ ہے۔ انھوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عدسے کی مُبالغائی طاقت کو دریافت کیا اور اس تحقیق نے مُبالغائی عدسے کے نظریہ کو انسان کے قریب تر کر دیا۔ ابن الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ‌بصارت کو رد کرکے دنیا کو جدید نظریہ بصارت سے روشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اجسام کی طرف سے آتی ہیں۔ انھوں نے پردۂ‌بصارت کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اس کا عصبِ‌بصری اور دماغ کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔

 

تحقیق و دریافت

یونیورسٹی آف سرے، برطانیہ کے پروفیسر جم الخلیلی  کی بی بی سی کے لیے ابن الہیثم سے متعلق پروگرام کی تیاری کے دوران میں اسکندریہ میں ایک ماہر سے بات ہوئی جنہوں نے ابن الہیثم کا فلکیات کے موضوع پر حال ہی (2010ء) میں دریافت ہونے والا ایک مقالہ دکھایا۔ بقول پروفیسر جم الخلیلی کے معلوم ہوتا ہے " ابن الہیثم نے سیاروں کے مدار کی وضاحت کی تھی جس کی بنیاد پر بعد میں کاپرنیکس، گیلیلیو، کیپلر اور نیوٹن جیسے یورپی سائنسدانوں نے کام کیا۔ کتنی غیر معمولی بات ہے کہ اب پتہ چل رہا ہے کہ آج کے ماہرین طبعیات پر ایک ہزار سال پہلے کے ایک عرب سائنسدان کا کتنا قرض ہے۔ "

 

اس نے سب سے پہلے روشنی کو حرارتی توانائی قرار دیا۔ روشنی کو شعاع کی وہ نہایت صحیح تعریف کرتا ہے۔

Aswan_Dam.jpg

Power plant of the Aswan High Dam, with the dam itself in the background. The Aswan Dam is an embankment dam located across the Nile River in Aswan, Egypt

تاثرات

راجر بیکن اور کیپلر نے الہیثم کے کام سے بہت استفادہ کیا جب کہ گلیلیو نے اپنی دوربین انہی کے کام سے استفادہ کرتے ہوئے بنائی۔

  Pinhole Camera  ابن الہیثم نے سوئی چھید کیمرا یعنی ثقالہ ایجاد کیا۔

 

اس کی مشہور کتاب "کتاب المناظر" ہے۔ اس کے علاوہ اس نے پہلی بار

آنکھ کا تراشہ (مجسمہ) بھی بنایا۔

محمد الفارسی کے ابن الہثم کتاب کتاب المناظر پر تبصرہ و تشریح لکھنے

کی وجہ سے ابن الہثم کی یہ تحقیقی کتاب جو اہل مشرق نظرانداز کر چکے تھے اجاگر ہو کر سامنے آئی اور  اس کے تراجم کی گئی۔  Tanqih الفارسی کی اس کتاب کو عربی میں التنقیح اور انگریزی میں 

cam.jpg

!السلام علیکم

میں عبدالمنان ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ بلوگ پسند آیا ہوگا، اگر آپ کے پاس میرے لیے کوئی تجویز ہے تو برائے مہربانی چیٹ کے ذریعے اپنی رائے سے آگاہ کریں میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔

bottom of page